نیکسون اور
ریگن کے مشیر خاص پاتریک بوکانان کا بیان؛
ایران کی بد امنی کے متعلق امریکہ کا طرز عمل کیوں قابل سرزنش ہے؟
نیوزنور:یہ مسئلہ ہر چیز سے زیادہ امریکی خارجہ
پالیسی میں ایک بیماری کی طرح ہے۔یہ عدم آہنگی اتحاد اور شفافیت اور دوستوں اور دشمنوں
کے ساتھ دوغلی پالیسی،دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کا عکاس
ہے.
ہفتے کے دن
امریکہ کی درخواست پر ایران کی بد امنی کے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل کا اجلاس کونسل کے تمام اراکین کی
موجودگی میں برگزار ہوا جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا اور ایک مرتبہ پھر مسئلہ فلسطین کی طرح امریکہ نے اس جلسے میں بھی اپنے آپ کو تنہا پایا۔
عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے
مطابق اس جلسے کے متعلق بہت سارے ماہرین اور ناظرین نے اس طرح کے جلسوں کو غیر
ضروری اور مضحکہ خیز بتایا ہے ۔
اسی چیز کے متعلق امریکی سیاستمدار ، کالم نویس ، صاحب نظر سیاسی شخصیت ، امریکی عہدے داروں ریچارد نیکسون ، جرالد فورد اور رینالد ریگن کے
مشیر خاص پاتریک بوکانان نے ویبسائیٹ کریتور میں
ایران کی بد امنی کے متعلق امریکی سیاست پر سخت تنقید کی ہے ۔ اس رپورٹ میں آیا ہے:
ایران کے متعلق سلامتی کونسل کے اجلاس میں
فرانس کے نمائندے فرانسوہ دلاترہ نے ایران
کے حالیہ حوادث کو خطرناک بتا نے کے باجود کہا : یہ حوادث اپنے آپ میں عالمی
سلامتی کے لئے خطرہ نہیں ہیں ۔
روسی نمائندے نے بھی اس جلسے پر اعتراض کرتے
ہوئے کہا کہ ، اس جلسے کو برگزار کرنے کی امریکی
منطق کی بنا پر ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو وال اسٹریٹ کے متعلق کہ جسے امریکہ نے سرکوب
کر دیا ہے ، اور اسی طرح فرگوسون میں میسوری پولیس کے رویے کے متعلق بھی پی گیری اور چھان بین کرنی چاہئے ۔
برطانوی ترجمان، میتو ریکرافت نے اس مسئلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی
کونسل کے فیصلے کے مطابق کسی کو بھی ایران
کو جواب دینے پر مجبور کرنے کا حق حاصل
نہیں ہے ۔ اندرونی تنازعات میں کسی بھی قسم کی دخالت کہ جو فسادات کے اضافے کا سبب
بنے اس کونسل کی ساکھ کو خطرے میں ڈالتی ہے۔
پچاس سال پہلے ، مارتین لوتر کینگ کے قتل کے
بعد امریکہ کے 100 کے قریب شہروں میں فسادات بھڑک اٹھے تھے اور بلا فاصلہ فیڈرل پولیس احتجاجیوں سے مقابلہ کے لئے میدان میں اتر
آئی۔ سال 1992 میں جب کچھ پولیس والوں نے
لاس اینجلس میں ایک سیاہ پوست رادنی کینگ
کو زد و کوب کیا تھا تو امریکہ میں بیسویں صدی کے خطرناک ترین احتجاجات شروع ہوئے تھے اور امریکی پولیس نے بھی شدت کے ساتھ ان
اعتراضات کو کچلا تھا۔
کیا ان احتجاجات کے متعلق ہمارے (امریکہ
کے) رویے کا اقوام متحدہ سے کوئی ربط ہے ؟
1946 میں اقوام متحدہ کی تاسیس سے اس کی
بنیاد اس کے اعضا ممالک کے داخلی امور میں عدم دخالت پر منحصر ہے۔ کیا اب شرائط بدل دئے گئے ہیں اور یہ طے پا چکا
ہے کہ اقوام متحدہ اپنے اراکین ممالک کے داخلی امور کی نظارت کرے گی ؟
یہ مسئلہ ہر چیز سے زیادہ امریکی خارجہ پالیسی
میں ایک بیماری کی طرح ہے ۔
یہ عدم
آہنگی اتحاد اور شفافیت اور دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ دوغلی پالیسی ، دوسرے ممالک
کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کا عکاس ہے۔
امریکی اتحادی
فیلپینی صدر رودریگو دوترتہ کی جانب سے منشیات کے مجرموں کا قتل عام قابل
سرزنش جرم ہے یا ایران کا احتجاجیوں کے ساتھ رویہ؟
اتنا کافی ہے کہ ہم حکومت ایران کے احتجاجیوں
کے ساتھ رویے کا مقایسہ سیسی حکومت کے محمد مرسی کی سرکوبی کے بعد احتجاجیوں
کے متعلق رویے کے ساتھ کریں ؛ کون سا
واقعہ زیادہ تشدد آمیز ہے ؟
کیا اس وقت مشرق وسطیٰ میں ایران کے حالات بد
تر ہو چکے ہیں ؟
حسن روحانی
انتخابات میں 57٪ فیصد ووٹوں کے ساتھ ایرانی صدر منتخب ہوئے ہیں ۔ لیکن
محمد بن سلمان کو کس نے سعودی عرب کا ہونے
والا بادشاہ منتخب کیا ہے ؟
امریکہ کی
خارجہ پالیسی کی عدم موفقیت اور
اخلاقی گراوٹ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم
امریکی اپنے انسانی منافع، دشمن شناسی ، عزت نفس
اور ہر وہ چیز جو ایک متدین اور اچھے ملک کے پاس ہونی چاہئے پر متفق نہیں
ہیں ۔